یہ مضمون پاکستان کے اس طبقے پر ایک طنزیہ مگر تلخ حقیقت پر مبنی تنقیدی جائزہ ہے جو مغرب سے اپنی وابستگی کو ایک اعزاز سمجھتے ہیں اور اپنے ہی ملک کی یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنی زبان بولتے ہوئے شرم آتی ہے، جنہیں اپنے ملک کی تاریخ اور ثقافت سے زیادہ مغرب کی ہلکی پھلکی باتوں سے دلچسپی ہوتی ہے۔ جو پاکستان میں پیدا تو ہوئے، مگر پاکستانیت ان میں کہیں نہیں۔ جنہیں عوام سے جڑنے میں اپنی توہین محسوس ہوتی ہے، مگر مغرب میں انہیں وہ عزت بھی نہیں ملتی جو ایک عام شہری کو وہاں حاصل ہوتی ہے۔
یہ پاکستان کے وہ "اشرافیہ" ہیں جو خود کو باقی قوم سے بلند سمجھتے ہیں، جو مغرب کی محفلوں میں اپنے ہی ملک کو بدنام کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں، جو اپنے ہی وطن کا مذاق اڑاتے ہیں تاکہ وہاں موجود لوگوں کو خوش کیا جا سکے۔ لیکن افسوس، یہی "مہذب" مغربی لوگ جن کی خوشنودی کے لیے یہ اپنا سب کچھ بیچ ڈالتے ہیں، انہیں محض ایک کم تر، پسماندہ اور "غریب" ملک کا نمائندہ سمجھتے ہیں، جسے وہ کبھی برابر کا درجہ نہیں دیتے۔
یہ طبقہ انگریزی بولنے کو عقل و شعور کا معیار سمجھتا ہے، مغربی لباس کو تہذیب کی علامت اور پاکستان کے مسائل کا الزام ہمیشہ عام آدمی پر ڈال کر خود کو ہر ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دیتا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی سیاست، معیشت اور ثقافت پر بے لاگ تنقید کرتے ہیں، مگر خود کبھی اس نظام کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ جو امریکہ، برطانیہ یا دبئی میں محلات میں رہ کر پاکستان کی غریبی پر "گہرے تجزیے" کرتے ہیں، اور جب یہاں آتے ہیں تو عام لوگوں سے ایسے برتاؤ کرتے ہیں جیسے وہ کسی اور سیارے سے آئے ہوں۔
یہی وہ لوگ ہیں جو مغرب کی خوشنودی کے لیے اپنے ہی ملک کے خلاف باتیں کرتے ہیں، مگر وہاں انہیں کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔ ان کے لیے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے ملک میں اجنبی محسوس کرتے ہیں اور مغرب میں کبھی اپنا مقام نہیں بنا پاتے۔
یہ اشرافیہ عام پاکستانی کو "جاہل، پسماندہ اور غیر مہذب" کہتی ہے، مگر خود ایسی خود غرضی کا شکار ہے کہ اپنے ملک کی بہتری کے لیے کبھی ایک قدم بھی نہیں اٹھاتی۔ ان کے بچے مغرب میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان کی جائیدادیں بیرون ملک ہیں، ان کے علاج کے لیے پاکستان کا کوئی ہسپتال قابلِ قبول نہیں، اور ان کا ہر خواب مغربی دنیا میں جڑ پکڑنے کا ہوتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں بھی انہیں وہ عزت کبھی نہیں ملتی جس کے یہ خواب دیکھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ پردیسی اور دوسرے درجے کے شہری ہی رہتے ہیں، چاہے ان کے پاس جتنی بھی دولت ہو۔
یہ طبقہ اپنے تئیں خود کو اس ملک کا "پڑھا لکھا" اور "باشعور" طبقہ سمجھتا ہے، مگر درحقیقت یہ لوگ پاکستان کے سب سے بڑے استحصالی عناصر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ملک کے وسائل پر قابض ہیں، جو عوام کو غربت اور محرومی میں دھکیل کر خود بیرونِ ملک عیاشیاں کرتے ہیں۔ جو کبھی "لبرلزم" کے نام پر، کبھی "جدیدیت" کے بہانے، اور کبھی "مغربی اقدار" کے نعرے لگا کر اس ملک کے نظریاتی، ثقافتی اور اخلاقی وجود کو کھوکھلا کرتے ہیں۔
یہ اشرافیہ مغرب میں اپنی جگہ بنانے کے لیے ملک و قوم کا سودا کر رہی ہے، مگر وہاں بھی انہیں وہ مقام کبھی نہیں ملے گا جس کے یہ خواب دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے پاکستان ایک ہوٹل کی طرح ہے جہاں سے یہ فائدہ اٹھاتے ہیں، مگر مستقل رہنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ جو ملک انہیں سب کچھ دیتا ہے، وہ اسی کی جڑیں کاٹنے میں سب سے آگے ہیں۔
یہ طبقہ پاکستان کے لیے ایک ناسور بن چکا ہے۔ ان کے دل میں مغربی دنیا کے لیے غلامی کا جذبہ اور اپنے ہی ملک کے لیے نفرت ہے۔ لیکن وہ نہ تو مغرب میں کوئی اہمیت رکھتے ہیں اور نہ ہی یہاں کے عوام کے دلوں میں ان کے لیے کوئی عزت ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو نہ ادھر کے رہے، نہ اُدھر کے۔