پاکستانی فوج کی طاقت، خفیہ آپریشنز، اور ملکی سلامتی پر گرفت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے، مگر جہاں طاقت ہو، وہاں کمزوری کے دروازے بھی کھلتے ہیں۔ ہر قلعے میں دراڑیں پڑتی ہیں، اور جب بات فوج کے اعلیٰ افسران کی اخلاقی گراوٹ کی ہو، تو پردہ ڈالنے کے لیے پوری مشینری حرکت میں آ جاتی ہے۔ سنہ 2000 کے عشرے میں، جب پرویز مشرف اقتدار پر قابض تھے، ایک ایسا راز سامنے آیا جسے آج بھی اندھیروں میں دفن کر دیا گیا ہے۔ یہ تھا مشرف دور کا ہنی ٹریپ اسکینڈل، جس میں پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے کچھ اعلیٰ افسران مبینہ طور پر غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے جال میں پھنس گئے۔

ہنی ٹریپ کوئی نئی سازش نہیں، بڑی طاقتیں ہمیشہ سے دشمن ممالک کے حساس افراد کو قابو میں کرنے کے لیے اس آزمودہ حربے کا استعمال کرتی آئی ہیں۔ مگر جب دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیوں میں سے ایک کے افسران خود اس سازش کا شکار ہونے لگیں، تو سوالات اٹھتے ہیں۔ مشرف کے دور میں ایسی رپورٹس آئیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستانی فوج کے کچھ اعلیٰ افسران کو بیرون ملک تعیناتی کے دوران خواتین کے ذریعے جال میں پھنسایا گیا، پھر انہیں بلیک میل کیا گیا، اور یوں حساس راز دشمن ایجنسیوں کے ہاتھ لگنے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔

یہ اسکینڈل پاکستانی عوام کے سامنے نہیں لایا گیا، اور جو کوئی بھی اس معاملے پر بات کرتا، اسے خاموش کر دیا جاتا۔ کسی بھی افسر کو سرِعام شرمندہ نہیں کیا گیا، کوئی تحقیقات عوام کے سامنے نہیں آئیں، اور یوں یہ معاملہ دب کر رہ گیا۔ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں؟ اگر یہ محض ایک افواہ تھی، تو فوج اور انٹیلی جنس اداروں نے اتنی محنت کیوں کی کہ ہر اس آواز کو دبا دیا جائے جو اس پر بات کرے؟ سچائی جتنی بھی گہرائی میں دفن ہو، اس کے نشان کہیں نہ کہیں باقی رہتے ہیں۔

یہ سوالات آج بھی جواب طلب ہیں۔ اگر یہ الزامات بے بنیاد تھے تو فوج نے آزادانہ تحقیقات کی اجازت کیوں نہیں دی؟ اگر پاکستانی افسران بے گناہ تھے، تو معاملہ دبانے کے لیے اتنی شدید کوششیں کیوں ہوئیں؟ کیا واقعی پاکستانی فوج کے حساس راز دشمن ایجنسیوں کے ہاتھ لگے؟ کیا اس اسکینڈل کی پردہ پوشی میں صرف فوج شامل تھی یا مشرف حکومت بھی برابر کی شریک تھی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو شاید کبھی مکمل جواب نہ پا سکیں، کیونکہ پاکستانی فوج کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب بھی کوئی ایسا معاملہ سامنے آتا ہے جو اس کی "مقدس" ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہو، تو اسے زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں سیاستدانوں کے اسکینڈلز میڈیا پر اچھالے جاتے ہیں، عدالتوں میں کیسز چلتے ہیں، مگر جب فوج کے افسران پر سوال اٹھتا ہے، تو سب کچھ "قومی سلامتی" کے نام پر چھپا دیا جاتا ہے۔ کیا پاکستان کے عوام کو یہ جاننے کا حق نہیں کہ ان کے محافظ خود کس حد تک غیر محفوظ ہو سکتے ہیں؟ مشرف دور کا یہ ہنی ٹریپ اسکینڈل پاکستانی فوج کی تاریخ کا وہ باب ہے جسے ہمیشہ اندھیرے میں رکھا گیا، مگر تاریخ کا ایک اصول ہے، سچائی کو جتنا بھی دبایا جائے، وہ ایک دن روشنی میں ضرور آتی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ جب وہ دن آئے گا، تو کیا ہم اس سچائی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟

بس ایک اداس سی دنیا