پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے ایک پیچیدہ معاملہ رہا ہے، لیکن حالیہ انکشافات نے قوم کو حیران کر دیا ہے۔ برطانیہ کے ذریعے یوکرین کو پاکستانی اسلحہ فراہم کرنے کا معاملہ قومی سطح پر شدید تشویش کا باعث ہے۔ یہ فیصلہ نہ عوام کی رائے سے لیا گیا، نہ پارلیمنٹ میں اس پر کوئی خاطر خواہ بحث ہوئی، بلکہ چند خفیہ سودوں کے تحت اس پر عمل کیا گیا۔ یہ اقدام پاکستانی عوام کی امنگوں اور ملکی سلامتی کے خلاف ایک سنگین دھوکہ ہے۔
برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی مدد سے یوکرین کو پاکستانی اسلحہ فراہم کرنے کی خبریں گزشتہ سال منظر عام پر آئیں۔ رپورٹس کے مطابق، پاکستان آرڈیننس فیکٹری (POF) کے تیار کردہ 122 ملی میٹر کے توپ کے گولے اور Yarmuk راکٹس کو برطانیہ کے ایک معاہدے کے تحت یوکرین منتقل کیا گیا۔ اس منتقلی میں رومانیہ کے فضائی اڈوں اور دیگر یورپی ممالک کے زمینی راستے استعمال کیے گئے۔
پاکستان نے ہمیشہ سے روس کے ساتھ متوازن سفارتی تعلقات رکھے ہیں، لیکن یوکرین کو اسلحہ بھیجنا پاکستان کو ایک ایسے تنازع میں دھکیل رہا ہے جہاں اسے کسی بھی طرح کا فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ برطانیہ کی جانب سے اسلحے کی ترسیل کے لیے پاکستان کا استعمال دراصل مغربی دباؤ کی ایک واضح علامت ہے، جو ہماری خودمختاری پر سوالات اٹھاتی ہے۔
پاکستانی عوام کو اس سودے سے مکمل طور پر بےخبر رکھا گیا۔ کیا حکومت نے اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں کوئی بحث کی؟ کیا عوامی رائے لی گئی؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے شہریوں نے کبھی یوکرین یا کسی بھی دوسرے جنگی خطے میں ہتھیاروں کی فروخت کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ یہ فیصلہ چند مخصوص اداروں نے اپنے مفادات کے تحت کیا، جو عوامی رائے کے خلاف اور ملکی خودمختاری پر کاری ضرب ہے۔
پاکستان میں معاشی بدحالی کے دوران، اسلحے کی فروخت کو معیشت کی بحالی کے لیے ایک ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے، لیکن یہ ایک انتہائی کمزور دلیل ہے۔ اس فیصلے سے نہ صرف پاکستان کے عالمی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں بلکہ ملک کو ممکنہ طور پر روس کے ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، جو خطے میں پاکستان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
یوکرین کو اسلحے کی فراہمی کے درج ذیل خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں:
روس کے ساتھ سفارتی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں
پاکستان مزید مغربی دباؤ میں آ جائے گا
عوامی اعتماد میں کمی
پاکستان کے شہریوں نے اپنی حکومت کو جنگوں میں فریق بننے کا مینڈیٹ کبھی نہیں دیا۔ یوکرین کو ہتھیاروں کی فروخت ایک ایسا اقدام ہے جس نے نہ صرف ملک کی خودمختاری پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں بلکہ پاکستانی عوام کو بھی اس سے بےخبر رکھا گیا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے پر نظرثانی کرے، عوامی رائے لے اور مستقبل میں ایسے کسی بھی اقدام سے پہلے پارلیمنٹ میں کھلی بحث کروائے تاکہ ملکی مفاد کو مقدم رکھا جا سکے، نہ کہ بیرونی طاقتوں کے مطالبات کو۔