یہ خاک کی بستی، یہ اجڑی زمیں،
جہاں راج کرتا ہے سایۂ نگیں۔
یہاں تخت بھی اُن کے، قانون بھی،
یہاں خلق ہے محض اک داستان غمگیں۔

یہ ستر برس کی وہ تاریک راہ،
جہاں لوٹ کا کوئی حساب ہی نہیں،
جہاں خون بکتا ہے سونے کے دام،
جہاں حرفِ حق کا جواب ہی نہیں۔

یہاں کھیت جلتے ہیں، روٹی نہیں،
یہاں رزق کا کوئی وارث نہیں،
یہاں دستِ مزدور خالی رہے،
یہاں خواب پل میں تباہی بنیں۔

یہاں عدل سوتا ہے ظلمت میں گم،
یہاں سچ بکا ہے کسی مول پر،
یہاں جو بھی بولا، مٹا دیا گیا،
یہاں حق فنا ہے کسی قول پر۔

یہاں سرحدیں بیچ کھائیں گئیں،
یہاں قوم ہے محض اک کھیل سا،
یہاں عزتِ ملت نیلام ہے،
یہاں تخت سب ایک ہی جھیل سا۔

یہاں وردیوں میں چھپے بھیڑئیے،
یہاں عزتِ خلق پامال ہے،
یہاں رتبے، محل اور جاہ و جلال،
مگر دل ہے خالی، سوال ہے!

یہ ملک تھا قائد کی آرزو،
یہاں عدل تھا، روشنی تھی کبھی،
مگر جو بھی آیا، لُوٹ لے گیا،
یہاں خلق کی قسمت لٹی تھی کبھی۔

یہ ظالم، یہ غاصب، یہ فرعون صفت،
یہ اپنے ہی بطن کے دشمن بڑے،
یہاں جو بھی چھوا، وہ برباد ہے،
یہاں راکھ ہے، خون ہے، آنسو کھڑے۔

مگر اے زمیں، تُو ابھی بھی گواہ،
کہ یہ بختِ شب کی کہانی نہیں،
یہ سورج نکلنے کو بے تاب ہے،
یہ سچ کی فنا اب پرانی نہیں!

بس ایک اداس سی دنیا