پاکستان میں انسانی اعضا کی غیر قانونی تجارت کا ایک سنگین واقعہ 2023 میں سامنے آیا جب پنجاب پولیس کی سرپرستی میں ایک منظم گروہ کا انکشاف ہوا جو غریب اور بے بس افراد کے گردے نکال کر بیچنے میں ملوث تھا۔ یہ واقعہ پنجاب کے مختلف شہروں میں پیش آیا، جہاں اس غیر قانونی کاروبار کو طویل عرصے سے چلایا جا رہا تھا۔
پاکستان میں انسانی اعضا کی غیر قانونی تجارت ایک سنگین مسئلہ رہا ہے، لیکن 2023 میں پنجاب پولیس کی ملی بھگت سے ہونے والا یہ اسکینڈل سب سے زیادہ ہولناک ثابت ہوا۔ اس نیٹ ورک کا سرغنہ فواد مختار نامی ایک جعلی ڈاکٹر تھا، جسے پہلے بھی اسی جرم میں پکڑا گیا تھا لیکن ہر بار بچ نکلتا رہا۔
یہ گروہ انتہائی بے رحمی سے کام کر رہا تھا۔ پولیس کی مدد سے، غریب افراد کو اغوا کیا جاتا، یا انہیں نوکری کا جھانسہ دے کر لے جایا جاتا، اور بعد میں ان کے گردے نکال کر مہنگے داموں بیچ دیے جاتے۔
متاثرین میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو روزگار کی تلاش میں تھے اور غربت کے مارے کسی بھی پیشکش کو قبول کرنے پر مجبور تھے۔ کچھ کیسز میں، متاثرین کو زبردستی بے ہوش کر کے ان کے گردے نکالے گئے، اور کئی لوگ دورانِ آپریشن ہی جاں بحق ہو گئے۔
حیران کن طور پر، پنجاب پولیس نہ صرف اس گھناؤنے کاروبار سے واقف تھی بلکہ اس کی پشت پناہی بھی کر رہی تھی۔ یہ پولیس اہلکار مجرموں کو تحفظ فراہم کرتے اور کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی کو ناکام بنانے میں مدد دیتے۔
2023 میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی، اور یہ جماعت آج بھی اقتدار میں ہے۔ اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد حکومت نے زبانی جمع خرچ کیا مگر عملی اقدامات میں شدید کوتاہی برتی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور دیگر حکومتی ادارے یہ ظاہر کرتے رہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں، لیکن اصل میں کوئی بڑی کارروائی نہیں کی گئی۔
یہی وجہ ہے کہ فواد مختار جیسے مجرموں کو بار بار بچ نکلنے کا موقع ملا، اور پنجاب پولیس کے وہ اہلکار جو اس مکروہ کاروبار میں ملوث تھے، کسی بھی بڑی سزا سے محفوظ رہے۔ یہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
یہ اسکینڈل اس قدر خوفناک تھا کہ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس پر رپورٹنگ کی۔ سی این این، الجزیرہ اور دیگر عالمی نیوز ایجنسیز نے تفصیلات جاری کیں، جس کے بعد پاکستان کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
لیکن باوجود اس کے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کوئی موثر اقدامات نہیں کیے، اور نتیجہ یہ نکلا کہ یہ کاروبار بدستور جاری رہا۔
اب اطلاعات یہ آ رہی ہیں کہ پنجاب میں دوبارہ ویسی ہی سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر رپورٹس اور ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پنجاب پولیس ایک بار پھر اغوا اور اعضا کی غیر قانونی فروخت میں ملوث ہے۔
یہ معاملہ انتہائی تشویشناک ہے اور اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو مزید بے گناہ لوگ اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور پنجاب پولیس کو فوری طور پر جواب دہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
یہ کوئی عام مجرمانہ سرگرمی نہیں بلکہ منظم جرائم کی ایک خوفناک شکل ہے جس میں ریاستی ادارے بھی شامل ہیں۔ اگر پنجاب پولیس کو جواب دہ نہ بنایا گیا اور حکومت کی نااہلی جاری رہی، تو یہ مکروہ دھندہ مزید بڑھ سکتا ہے۔
اب یہ عوام، میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر منحصر ہے کہ وہ اس معاملے کو اجاگر کریں اور حکومت کو مجبور کریں کہ وہ سنجیدہ اقدامات کرے تاکہ مزید معصوم جانوں کو بچایا جا سکے۔