پینڈو بادشاہی خاندان: ایک لوٹ مار کی داستان

nawaz لو جی، قصہ ایک ایسے "شریف" خاندان کا، جو اتنا شریف نکلا کہ پورے ملک کو ہی اپنی جاگیر سمجھ لیا۔ لاہور کے کسی پرانے گلی محلے میں بیٹھا کوئی بابا جی اگر سگریٹ کا کش لگا کر کہے کہ "اوئے، ساڈے لوکاں نوں ایہو جے بندے ہی پسند آندے نیں"، تو یقین کر لو، بندہ یا تو سیاست سے بیگانہ ہے یا پھر کسی چمچ کی طرح "کڑاہی" میں پھنسا ہوا ہے۔

یہ خاندان جب پہلی بار حکومت میں آیا تو جیسے کسی نکے منڈے کو پہلی بار کھلونوں کی دکان پر لے جایا جائے۔ پہلے دن سے ہی خزانہ اپنی "ماں جی" سمجھ کر لپٹ گئے۔ پہلے اتفاق فیکٹریاں، پھر شوگر ملز، پھر لندن فلیٹس، اور پھر سیاست کی وہ "گندی نالی" جس میں پورے ملک کو دھکیل دیا گیا۔

باپ سے بیٹی تک: نوسربازی کی نسلیں

لوگ پوچھتے ہیں، شریف خاندان کی اصل دولت کہاں سے آئی؟ ہائے بھئی، یہ سوال بھی کوئی پوچھنے کی چیز ہے؟ اگر لاہور کے کسی نان چنے والے کے پاس بھی اتنا پیسہ ہوتا جتنا ان کے چپڑاسی کے بیٹے کے اکاؤنٹ میں نکلتا ہے، تو وہ بھی لندن میں فلیٹ خرید چکا ہوتا۔

باپ نے قوم کو بھاشن دیے، چمچوں نے بجائی واہ واہ، اور جب حساب دینے کا وقت آیا تو چپ کر کے انگلینڈ بھاگ گئے۔ بیٹی کو ایک سیاسی پتلی بنایا، جو سوشل میڈیا پر ایسے چمکنے لگی جیسے پٹرول کی قیمت بڑھنے پر عوام کے دماغ میں غصہ چمکتا ہے۔ وہ تقاریر کرتی ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے کوئی پرانی فلم کا ولن ڈائیلاگ بول رہا ہو۔

دادا کی داڑھی، پوتی کی ٹیپ ریکارڈنگ

یہ خاندان سیاست میں آیا نہیں، مسلط کیا گیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے صرف مال بنایا، اب زبانیں بھی چوری ہونے لگیں۔ کبھی "مجھے کیوں نکالا" کا ڈرامہ، کبھی "پاناما نہیں اقامہ" کا راگ، اور کبھی عدالت کے سامنے مظلومیت کے آنسو۔ اگر کوئی چور پکڑا جائے اور روتے ہوئے کہے، "ساڈی عزت رکھ لو"، تو کیا پولیس اسے چھوڑ دیتی ہے؟

پھر وہ آڈیو لیکس آئیں جنہیں سن کر یوں لگا کہ جیسے ملک کی سیاسی دکان کسی شادی ہال میں چل رہی ہو، جہاں فیصلے نہ عقل سے ہوتے ہیں، نہ قانون سے، بلکہ برتن دھونے والے کو بلایا جاتا ہے کہ "اوئے، اگلی حکومت دی ڈیٹ دسا دے"۔

نظام کا گندا لطیفہ

یہ خاندان پاکستان کے سیاسی نظام پر وہ لطیفہ ہے جو ہر دفعہ سن کر ہنسی کم، غصہ زیادہ آتا ہے۔ کبھی قطری خط، کبھی جعلی رسیدیں، کبھی بیمار ہونے کا ناٹک، اور کبھی "ووٹ کو عزت دو" کا بے کار راگ۔

جب اقتدار میں ہوں تو ملک کا سارا پیسہ اپنی جیب میں ڈال لیں، اور جب پکڑے جائیں تو باہر جا کر کہتے ہیں، "ہماری معیشت تباہ ہو گئی ہے"۔ بھئی، معیشت نہیں، تمہارا ذاتی خزانہ کمزور ہوا ہے!

اختتامیہ: یہ کہانی کبھی ختم نہیں ہوگی

نواز شریف اور اس کی فیملی سیاست میں وہ پرانے دھاگے ہیں جو جتنے بھی کمزور ہوں، پھر بھی قابو نہیں آتے۔ بس عوام کے ہاتھوں میں ایک ایسا سستا صابن ہے، جو جتنا بھی رگڑ لو، گند نہیں دھلتا۔

یہ سیاست نہیں، "خاندانی مافیا" ہے، جو ہر بار ایک نئے ڈرامے کے ساتھ آتا ہے۔ کبھی بیماری، کبھی بیٹی، کبھی ترقی کے جھوٹے دعوے۔ لیکن ایک بات طے ہے، جب تک ان جیسے لوگ موجود ہیں، پاکستان کی بدقسمتی کی کہانی ختم نہیں ہو سکتی۔

تو اب سوال وہی ہے، جو وہ کون تھا کہنے والے نے پوچھا تھا:
یہ کون ہیں؟ اور یہ کب جائیں گے؟

بس ایک اداس سی دنیا