پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں جمہوریت محض ایک دلکش نعرہ ہے، آئین محض ایک فریب، اور عوامی رائے صرف ایک لطیفہ۔ یہاں ووٹ ڈالنے کا حق تو ہر کسی کو ہے، مگر ووٹ گننے کا حق صرف انہیں دیا جاتا ہے جو بندوق کی نالی کے پیچھے کھڑے ہیں۔ یہ ایک ایسا دیس ہے جہاں وزیر اعظم ایوانِ اقتدار میں نہیں، بلکہ راولپنڈی کی چند عمارتوں میں پیدا ہوتا ہے، اور جہاں پارلیمان کی حیثیت محض ایک تھیٹر سے زیادہ کچھ نہیں، جس میں سویلین حکمران کٹھ پتلیوں کی طرح ناچنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں جنرل اقتدار کے ایوانوں میں پالیسی بناتے ہیں اور سیاستدان اسے نافذ کرنے کے لیے اپنے دستخط ثبت کرتے ہیں۔ جہاں "محبِ وطن" کہلانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے گیت گائیں اور "غدار" ہونے کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ آپ سوال کریں: آخر ملک پر راج کرنے کا حق صرف چند وردی پوش افراد کو ہی کیوں ہے؟

تاریخ کے آئینے میں پاکستان: سول حکمرانی کا قتل عام

یہ تاریخ کا ناقابلِ تردید سچ ہے کہ پاکستان کے پہلے جمہوری وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو گولی مار دی گئی، مگر ان کے قاتل کا آج تک نام تک نہیں لیا جاتا۔ پھر بھٹو آیا، جس نے جمہوریت کی بات کی، عوامی طاقت کی دہائی دی، تو ایک "مقدس وردی والے" نے اسے راتوں رات تختہ دار پر چڑھا دیا۔ مشرف آیا، نو سال تک بندوق کے زور پر حکمرانی کی، مگر جاتے ہوئے این آر او دے کر ملک کو مزید اندھیروں میں دھکیل گیا۔ آج وہ لندن میں آرام سے زندگی گزار رہا ہے، جبکہ عوام بھوک، بیروزگاری اور خوف کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔

یہ وہی ملک ہے جہاں منتخب وزرائے اعظم کو پھانسی دی جاتی ہے، قید میں ڈالا جاتا ہے، جلا وطن کیا جاتا ہے، یا پھر انہیں سرِعام "سکیورٹی بریچ" قرار دے کر نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ یہاں اقتدار انہی کے پاس رہتا ہے جن کے ہاتھ میں بندوق اور جن کے قبضے میں ریاستی مشینری ہے۔

پاکستان: ایک سیکیورٹی اسٹیٹ یا ایک قید خانہ؟

پاکستان آج ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں شہری اپنی مرضی سے بول نہیں سکتے، لکھ نہیں سکتے، سوال نہیں کرسکتے، کیونکہ یہاں آزادی اظہارِ رائے کی قیمت غداری کے مقدمات اور جبری گمشدگیوں کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ اگر آپ نے حقیقت پر سے پردہ اٹھانے کی جرات کی، تو یا تو آپ کو "نامعلوم افراد" اٹھا لیں گے، یا پھر آپ کو ملک دشمن، را کا ایجنٹ، یا غیر ملکی ایجنڈا پھیلانے والا قرار دے دیا جائے گا۔

یہاں عدالتیں انصاف نہیں دیتیں، بلکہ انہی فیصلوں کی توثیق کرتی ہیں جو کہیں اور لکھے جا چکے ہوتے ہیں۔ یہاں صحافی سچ بولنے کی پاداش میں غائب کر دیے جاتے ہیں، اور میڈیا وہی دکھاتا ہے جو دکھانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ یہاں طلبہ یونین پر پابندی ہے مگر عسکری گروہوں کی بھرتی دھڑلے سے جاری ہے۔ یہاں عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے وہی لوگ ہیں جو عوام کو غلام بنانے میں لگے ہیں۔

معاشی زوال اور اسٹیبلشمنٹ کی عیاشیاں

پاکستان کی معیشت کا حال یہ ہے کہ ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، مگر ڈیفنس بجٹ ہر سال بڑھایا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے عوام کو بھکاری بنانے کے لیے لیے جاتے ہیں، مگر جرنیلوں کے لیے رہائشی سوسائٹیاں اور مہنگی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں۔ یہاں غریب کے بچے کو روٹی نہیں ملتی، مگر فوج کے ریٹائرڈ جرنیلوں کو ڈی ایچ اے میں پلاٹ دیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں غربت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ نوجوان اپنی ڈگریاں اٹھائے نوکریوں کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، مگر انہی نوجوانوں کو اسٹیبلشمنٹ اپنی پراکسی جنگوں میں جھونکنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ یہاں معیشت عوام کے خون سے چلتی ہے، اور عیاشی ایوانوں میں بیٹھے ان "محافظوں" کی چلتی ہے جو اس ملک کے اصل حکمران ہیں۔

پاکستان کا مستقبل: غلامی یا انقلاب؟

یہ سوال اب ہر پاکستانی کے ذہن میں گونج رہا ہے کہ آخر یہ تماشا کب تک چلے گا؟ کب تک عوام کو محبِ وطن اور غدار کے سرٹیفکیٹ بانٹے جاتے رہیں گے؟ کب تک نام نہاد حب الوطنی کے نام پر قوم کی گردن پر فوجی بوٹ رکھا جائے گا؟ کب تک جمہوریت کے لبادے میں آمریت کو چھپایا جاتا رہے گا؟

یہ ملک کسی جرنیل کی جاگیر نہیں، کسی مقتدرہ کی باندی نہیں، کسی خاندانی اشرافیہ کی سلطنت نہیں۔ یہ ملک 22 کروڑ عوام کا ہے، جنہیں اگر جمہوریت نہیں دی گئی، اگر انہیں ان کے حقوق نہیں دیے گئے، اگر انہیں ان کی آزادی نہیں دی گئی، تو یہ قوم ایک دن اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی۔

یہ سوال کوئی نظریہ ساز نہیں، کوئی دانشور نہیں، کوئی سیاستدان نہیں، بلکہ تاریخ خود پوچھ رہی ہے:
"پاکستان کب تک یرغمال رہے گا؟"

اگر پاکستان کو بچانا ہے، تو اسے ان زنجیروں سے آزاد کرنا ہوگا۔ ورنہ تاریخ میں ہمارا نام بھی ان قوموں کی فہرست میں لکھا جائے گا جو اپنی قسمت کے فیصلے خود نہ کر سکیں اور غلامی کی تاریکیوں میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گئیں۔

فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے!

بس ایک اداس سی دنیا