پاکستان میں گزشتہ دہائی کے دوران کئی فوجی آپریشنز کیے گئے، جن کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و امان قائم کرنا تھا۔ مگر ان آپریشنز کا سب سے بڑا نقصان عام شہریوں کو ہوا، جنہیں نہ صرف اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے بلکہ ان کی زندگیوں میں شدید مشکلات بھی پیدا ہوئیں۔ شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، باجوڑ اور دیگر قبائلی علاقوں میں ہونے والے آپریشنز نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا، اور یہ انسانی المیہ آج بھی جاری ہے۔
شمالی وزیرستان میں 2014 میں شروع کیے گئے آپریشن ضربِ عضب کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک بڑی مہم قرار دیا گیا۔ اس آپریشن کے دوران سینکڑوں دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے دعوے کیے گئے، مگر اصل نقصان عام شہریوں کو ہوا، جنہیں اپنے گھر چھوڑ کر مہاجر کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور کیا گیا۔ ہزاروں خاندان خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں اور افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ ان بے گھر افراد کو نہ تو حکومت کی طرف سے مناسب سہولیات فراہم کی گئیں اور نہ ہی ان کے گھروں کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے کوئی واضح منصوبہ بنایا گیا۔
باجوڑ، جو ایک اور حساس علاقہ ہے، وہاں بھی 2016 اور اس کے بعد مختلف چھوٹے بڑے آپریشنز کیے گئے، جس کے نتیجے میں مقامی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب بھی آپریشن کیے جاتے ہیں، تو شہریوں کے لیے نقل مکانی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ ان علاقوں میں بنیادی سہولیات کی پہلے ہی کمی تھی، مگر فوجی آپریشنز نے انہیں مزید مشکلات میں دھکیل دیا۔
ان آپریشنز کا ایک اور منفی پہلو یہ تھا کہ بے گھر ہونے والے افراد کو واپسی کے بعد اپنے گھروں اور کاروبار کی بحالی کے لیے کوئی مدد نہیں دی گئی۔ جو لوگ واپس آئے، انہیں تباہ شدہ گھروں، اجڑی ہوئی زمینوں اور بنیادی سہولیات سے محروم علاقوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی سال گزرنے کے باوجود، ان علاقوں میں ترقیاتی کام مکمل نہیں ہو سکے، اور آج بھی ہزاروں خاندان بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہیں۔
یہ المیہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ریاستی پالیسیوں میں عام شہریوں کے تحفظ اور حقوق کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کا دعویٰ کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک محفوظ اور مستحکم ریاست تب ہی ممکن ہے جب اس کے شہریوں کو بے گھر کیے بغیر مسائل کا حل نکالا جائے۔ بے گھر ہونے والے افراد کو نہ صرف معاوضہ دیا جانا چاہیے بلکہ ان کے علاقوں کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے جامع حکمت عملی بھی بنائی جانی چاہیے۔
پاکستان کو ایسے آپریشنز کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے مزید سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم واقعی ملک میں امن اور ترقی چاہتے ہیں، تو ہمیں ان افراد کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جو ان پالیسیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔