پاکستان: مرکز کا تحفظ یا ملک کی تقسیم کی سازش؟

پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسے موڑ آئے ہیں جہاں عوام کو حب الوطنی، قربانی اور استحکام کے نام پر بڑی حقیقتوں سے غافل رکھا گیا۔ آج ایک بار پھر ہم ایسے ہی نازک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ریاست کے تمام ادارے، خاص طور پر پاکستان کی فوج، جس کا بنیادی فریضہ ملک کے ہر گوشے کا تحفظ ہے، اب اپنے ترجیحاتی نقشے کو تبدیل کر چکی ہے۔

یہ بات اب کھل کر کہی جا رہی ہے کہ فوج کی تمام توجہ مرکز کے تحفظ پر مرکوز ہو چکی ہے۔ مرکز، یعنی "گریٹر پنجاب"، جسے وہ پاکستان کا دل سمجھتی ہے، اس کی بقا کے لیے ریاستی طاقت اور وسائل صرف کیے جا رہے ہیں، جبکہ بلوچستان، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور دیگر "حاشیہ پر موجود" علاقوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے پیچھے جو ذہنیت کارفرما ہے وہ ایک پرانی، لیکن ہمیشہ نظر انداز کی گئی حقیقت ہے: پاکستان کا جغرافیہ ہمیشہ ایک خاص بین الاقوامی ایجنڈے کے مطابق ترتیب دینے کی کوشش کی گئی ہے، اور بدقسمتی سے، ہماری اپنی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ اس ایجنڈے کے نفاذ میں سہولت کاری کا کردار ادا کیا ہے۔

یہ کوئی نئی حقیقت نہیں کہ پاکستان کو تقسیم کرنے کی عالمی کوششیں ہمیشہ سے جاری رہی ہیں۔ اس "بریکنگ پاکستان" پراجیکٹ کے مختلف مراحل میں کبھی لسانی نفرت کو ہوا دی گئی، کبھی فرقہ وارانہ فسادات کو بھڑکایا گیا، اور کبھی سیاسی افراتفری کو فروغ دیا گیا۔ مگر اصل کھیل آج زیادہ واضح ہو چکا ہے: مرکز کو محفوظ کرنے اور باقی ملک کو غیر اہم سمجھ کر تنہا چھوڑ دینے کی پالیسی۔ کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ بلوچستان میں وسائل موجود ہیں لیکن عوام محروم ہیں؟ کیا خیبر پختونخوا کے شہری آج بھی غیر یقینی حالات میں زندگی بسر نہیں کر رہے؟ کیا گلگت بلتستان کو مکمل آئینی حقوق مل گئے؟ جواب ایک بڑا "نہیں" ہے۔

لیکن سب سے سنگین حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں فوج اکیلی نہیں، بلکہ پاکستان کی نام نہاد سیاسی اور فکری اشرافیہ بھی برابر کی شریک ہے۔ شریف خاندان، زرداری خاندان، میڈیا کے مخصوص چہرے، اور دانشوروں کا وہ حلقہ جو بظاہر معتدل اور "پراگریسو" بیانیہ پیش کرتا ہے، دراصل اسی تقسیم کے منصوبے کو ذہنی طور پر قبول کروا رہا ہے۔ دوسری طرف فوج، جو ہمیشہ سے "سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ" کے نام پر اپنی طاقت برقرار رکھتی آئی ہے، اس بریک اپ پلان کی عملی فورس بنی ہوئی ہے۔ اس کام کے لیے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں، کیونکہ دشمن تو اندر ہی بیٹھے ہیں، مکمل ہم آہنگی کے ساتھ!

لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ وجہ سیدھی اور سادہ ہے: طاقت کے ان مراکز کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ ملک کو اکٹھا رکھ کر وہ مزید اقتدار پر قابض نہیں رہ سکتے۔ ان کے لیے اس ملک کا موجودہ سٹرکچر خطرہ بن چکا ہے، کیونکہ اگر مکمل پاکستان میں ایک عوامی، حقیقی جمہوری نظام نافذ ہو تو نہ صرف یہ کہ مرکز پر ان کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی، بلکہ ان کا دہائیوں پر محیط استحصالی نظام بھی گر جائے گا۔ چنانچہ، انہوں نے ایک نیا راستہ چنا ہے: مرکز کو محفوظ رکھیں، حاشیے کے علاقوں کو تباہ کریں، تاکہ اقتدار ان کے ہاتھ میں رہے۔

یہی وہ اصل جنگ ہے جو آج لڑی جا رہی ہے۔ عوام کو محض نعرے اور نمائشی حب الوطنی کے سراب میں الجھا کر اصل حقائق سے دور رکھا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام، خاص طور پر وہ جو مرکز کے باہر بستے ہیں، مزید دھوکہ کھانے کے لیے تیار ہیں؟ یا وہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے؟

یہ وقت ہے کہ ہم اس سازش کو پہچانیں، اس کے خلاف کھڑے ہوں، اور اس یقین کے ساتھ کہ پاکستان صرف "گریٹر پنجاب" نہیں، بلکہ ایک مکمل، خودمختار اور متحد ملک ہے، اپنا مؤقف مضبوط کریں۔ یہ صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ پاکستان کے مستقبل کا سوال ہے۔

بس ایک اداس سی دنیا