عشق اور اقتدار کا کھیل ہمیشہ سے تاریخ کے اوراق میں نمایاں رہا ہے، اور جب یہ کھیل فوجی اقتدار کے ساتھ جڑ جائے تو اس کے نتائج قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں بھی ایک ایسا ہی قصہ رقم ہوا، جو اقتدار، عیش و عشرت، اور ایک عورت کی غیر معمولی چالاکی کا امتزاج تھا۔ یہ کہانی جنرل یحییٰ خان اور جنرل رانی کی ہے، ایک ایسی داستان جو سرگوشیوں سے نکل کر وقت کے صفحات پر بکھر گئی۔
لاہور کی گلیاں ہمیشہ بے شمار رازوں کی امین رہی ہیں، جہاں کئی کہانیاں دب کر رہ جاتی ہیں، لیکن کچھ ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ مزید شدت اختیار کر جاتی ہیں۔ یہی کہانی جنرل یحییٰ خان اور جنرل رانی کی ہے، جو پاکستان کے ایوانِ اقتدار میں ہلچل مچا دینے والی ایک داستان بن گئی۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں میں ایسی محفلیں جمتی تھیں جہاں طاقتور مرد، جو خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے، جھکتے تھے۔ ساز و آواز کی یہ محفلیں قصور کی شاہراہوں اور راوی کے کنارے تک اپنی گونج رکھتی تھیں۔ مگر اگر تاریخ کے سب سے بڑے عشقیہ اسکینڈل کا کوئی مرکزی کردار ہے تو وہ بلاشبہ جنرل رانی تھی۔
یہ کوئی عام عورت نہ تھی، بلکہ ایک ایسی شخصیت تھی جس کی زلفوں میں ایک آمر کی حکومت کا مستقبل الجھا ہوا تھا۔ وہ صرف جنرل یحییٰ خان کی دل لگی نہ تھی، بلکہ اقتدار کے ایوانوں میں اپنی چالاکیوں اور حکمتِ عملی کے ذریعے اپنی حیثیت قائم کر چکی تھی۔ وہ ایک رازوں کی امین تھی، مگر خود بھی ایک ایسا راز بن چکی تھی جس پر انگلی اٹھانے کی جرات کم ہی لوگ کر سکتے تھے۔ یحییٰ خان، جو ایک سخت گیر فوجی حکمران تھا، اس کی گرفت میں بے بس نظر آتا تھا۔
یحییٰ خان کی کہانی صرف ایک فوجی ڈکٹیٹر کی کہانی نہیں، بلکہ ایک ایسے آمر کی کہانی ہے جو اقتدار اور عورت کی زلفوں میں جکڑا ہوا تھا۔ جہاں ملک کے مستقبل کے فیصلے ہونے چاہیے تھے، وہاں محفلیں سجی ہوتی تھیں۔ جہاں قوم کا مقدر لکھا جانا تھا، وہاں شراب کے جام لنڈھائے جا رہے تھے۔ یحییٰ خان خود کو ملک کا سب سے بااختیار شخص سمجھتا تھا، مگر حقیقت میں طاقت کسی اور کے ہاتھ میں تھی۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ کسی آمر کی حکومت کسی خاتون کی زلفوں میں الجھ کر رہ گئی ہو، مگر یہ پہلا موقع تھا کہ ایک عورت اقتدار کی اصل مالک بن گئی تھی۔
یحییٰ خان کے اقتدار کی کہانی دو متوازی راستوں پر چل رہی تھی: ایک طرف فوجی حکمرانی، اور دوسری طرف شراب و شباب کی حکمرانی۔ مگر جب اقتدار عشق کے بازار میں بکنے لگے تو زوال آنا طے ہوتا ہے۔ ان کا زوال کسی بیرونی سازش کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ ان کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ تھا، یا شاید جنرل رانی کے ہاتھوں کی ایک چال؟ جب بنگلہ دیش کی جنگ چھڑ گئی اور ملک دو لخت ہوا، تو یحییٰ خان اقتدار بچانے کی بجائے اپنی رنگین محفلوں کو بچانے میں مصروف تھا۔ یہ نہ صرف اس کی ذاتی شکست تھی بلکہ پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ بھی ثابت ہوا۔
یہ داستان محض ماضی کا ایک قصہ نہیں، بلکہ آج کے اقتدار کے نظام پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگر ہم آج کے سیاسی اور عسکری حالات پر نظر ڈالیں تو ایک سوال پیدا ہوتا ہے: کیا آج کے حکمرانوں نے ماضی سے سبق سیکھا ہے؟ یا اب بھی وہی کھیل کھیلا جا رہا ہے جو یحییٰ خان کے دور میں کھیلا گیا؟ کیا آج بھی کسی جنرل کی اصل طاقت کسی "رانی" کے ہاتھوں میں ہے؟ یہ محض ایک تاریخی کہانی نہیں، بلکہ ہر اس اقتدار پر سوالیہ نشان ہے جو طاقت کی بجائے خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے۔
تاریخ سبق دیتی ہے، مگر ان سے سیکھنے کے لیے آنکھوں کا کھلا ہونا ضروری ہے۔