وہ کون تھا؟
پاکستان کی صحافتی تاریخ میں کچھ نام ایسے ہیں جو سچائی کی علامت بن جاتے ہیں، جو طاقت کے ایوانوں میں گونجتے ہیں، جو ظالموں کی نیندیں حرام کر دیتے ہیں۔ انہی میں سے ایک ناقابلِ فراموش نام ارشد شریف شہید کا ہے۔ وہ محض ایک صحافی نہ تھے، بلکہ وہ ایک عہد تھے، وہ ایک تحریک تھے، وہ ایک عزم تھے کہ سچ کا علم کبھی جھکنے نہ دیا جائے گا۔
ارشد شریف نے ہمیشہ جبر اور استبداد کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ انہوں نے پاکستان کے طاقتور اداروں کے سامنے کھڑے ہو کر وہ سچ بیان کیا جسے کہنے کی جرات کم ہی صحافی کر سکتے ہیں۔ ان کا مشہور جملہ "وہ کون تھا؟" آج بھی عوام کے ذہنوں میں گونجتا ہے، جیسے وہ سوال آج بھی زندہ ہو۔ اس سوال کا مفہوم واضح تھا: وہ کون تھا جو اندھیروں میں فیصلے کرتا تھا؟ وہ کون تھا جو پردوں کے پیچھے بیٹھ کر سازشیں بُنتا تھا؟ وہ کون تھا جو اس ریاست کو اپنی جاگیر سمجھ کر عوام کو غلام بنائے رکھنا چاہتا تھا؟
ارشد شریف کی صحافت روایتی مصلحت پسندی اور طاقتوروں کی خوشنودی سے آزاد تھی۔ وہ اس صحافت پر یقین رکھتے تھے جو کسی ڈکٹیٹر یا جابرانہ قوت کے زیرِ اثر نہ ہو، بلکہ عوام کے حق میں سچائی کو بے نقاب کرے۔
ارشد شریف کو مسلسل دھمکیوں کا سامنا تھا، ان کے پروگراموں کو سینسر کیا گیا، انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ خاموش ہو جائیں، لیکن وہ نہ جھکے، نہ بکے، نہ رُکے۔ آخر کار، انہیں وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ وہ ملکوں ملکوں دربدر رہے، لیکن سچ کا پرچم بلند رکھا۔
پھر 23 اکتوبر 2022 کو کینیا میں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا، اور انہیں بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ باضابطہ طور پر یہ قتل غلط شناخت کا واقعہ قرار دیا گیا، لیکن ان کے چاہنے والے، ساتھی صحافی، اور عوام آج بھی سوال کرتے ہیں کہ یہ حقیقت کیا تھی؟ کیا یہ محض ایک اتفاق تھا یا ایک باقاعدہ سازش کے تحت انہیں راستے سے ہٹایا گیا؟
ارشد شریف کی شہادت کے بعد مختلف قیاس آرائیاں کی گئیں۔ ان کے قتل کو ایک "ریاستی ہدف" قرار دینے والے بھی تھے، اور اسے ایک بین الاقوامی سازش سمجھنے والے بھی۔ بہت سے مبصرین کا ماننا ہے کہ وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے، کیونکہ وہ ریاست کے ان فیصلوں پر سوالات اٹھاتے تھے جنہیں "ناقابلِ سوال" سمجھا جاتا تھا۔
یہ الزامات بھی لگائے گئے کہ ان کے قتل میں پاکستان کے بااثر حلقے، خصوصاً وہ عناصر جو آزادیٔ اظہار کو خطرہ سمجھتے ہیں، کسی نہ کسی حد تک ملوث تھے۔ لیکن آج تک یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے: "وہ کون تھا؟"
ارشد شریف کا قتل چاہے جس کسی نے بھی کروایا ہو، لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ شہادت کے رتبے پر فائز ہو کر امر ہو گئے۔ ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ ایک بہادر اور سچے صحافی کے طور پر لکھا جائے گا۔ وہ حکمرانوں کی بددیانتی، جرنیلوں کی سیاست، اور اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرتے رہے، اور اس قیمت پر انہیں اپنی جان دینی پڑی۔
لیکن سوال آج بھی زندہ ہے۔ وہ کون تھا؟
وہ کون تھا جس نے ارشد شریف کو قتل کروایا؟
وہ کون تھا جو سچ کی آواز کو دبانا چاہتا تھا؟
وہ کون تھا جس نے سمجھا کہ ارشد شریف کی موت کے بعد سچ مر جائے گا؟
ارشد شریف شہید تو چلے گئے، لیکن وہ اپنی موت سے امر ہو گئے۔ ان کی صحافت آج بھی زندہ ہے، ان کے الفاظ آج بھی گونجتے ہیں، ان کی بہادری آج بھی ان ظالموں کے چہروں پر ایک طمانچہ ہے جو طاقت کے نشے میں مست ہو کر سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ حکمران رہیں گے۔
لیکن تاریخ گواہ ہے کہ سچ کو دبایا جا سکتا ہے، مٹایا نہیں جا سکتا۔ ارشد شریف کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ جو صحافی سچائی کے راستے پر چلتے ہیں، وہ زندہ رہتے ہیں، چاہے ان کی سانسیں روک دی جائیں۔
یہ تاریخ ہے، یہ سچ ہے، اور یہ آواز ہمیشہ گونجتی رہے گی: "وہ کون تھا؟"