یہ مضمون لکھنا ایک تاریخی اور سیاسی حقیقت کو اجاگر کرنا ہے جو پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی ایک تلخ سچائی کے طور پر سامنے آتی رہی ہے۔ لاہور کے اشرافیہ نے پاکستان کے قیام میں بظاہر ایک اہم کردار ادا کیا، مگر جب بات قائداعظم محمد علی جناح کے اصولی مؤقف پر ثابت قدم رہنے کی آئی، تو وہی اشرافیہ جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا تھا، اپنے ذاتی مفادات، مراعات اور برطانوی سرپرستی کو برقرار رکھنے کے لیے اس خواب سے منہ موڑ گئی جس کا ذکر علامہ اقبال اور قائداعظم نے کیا تھا۔
لاہور برصغیر میں تحریکِ آزادی کا ایک مرکزی مقام تھا۔ 23 مارچ 1940 کو قراردادِ پاکستان اسی شہر میں منظور کی گئی، اور یہی شہر مسلم لیگ کا ایک مضبوط گڑھ بن گیا۔ لاہور کے جاگیردار، صنعتکار، اور نوابین تحریکِ پاکستان کے حامی نظر آتے تھے، لیکن ان کی حمایت اکثر اپنے مفادات سے جڑی ہوتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اگر برطانوی حکمرانی کا خاتمہ ہوا تو انہیں اپنی جاگیریں اور مراعات برقرار رکھنے کے لیے نئی حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔
1947 میں جب پاکستان ایک حقیقت بن گیا، تو یہی اشرافیہ جو جناح کے شانہ بشانہ کھڑی تھی، جلد ہی ان کے نظریے سے منہ موڑنے لگی۔ قائداعظم کا خواب ایک جدید، جمہوری، اور عوامی فلاحی ریاست کا تھا جہاں سب کو برابری کے مواقع حاصل ہوں، مگر لاہور کے مراعات یافتہ طبقے کو یہ گوارا نہ تھا۔
قائداعظم نے ایک ایسی ریاست کا تصور دیا تھا جہاں قانون کی بالادستی ہو، عوام کو بنیادی حقوق میسر ہوں، اور جاگیرداروں و سرمایہ داروں کا استحصالی نظام ختم کیا جائے۔ مگر جیسے ہی قیامِ پاکستان کے بعد جناح نے ان اصلاحات کی بات کی، لاہور کی اشرافیہ نے پس پردہ ان کی مخالفت شروع کر دی۔
یہ طبقہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان میں کوئی ایسی اصلاحات کی جائیں جو ان کے استحصالی ڈھانچے کو کمزور کرے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جناح کی زندگی میں ہی وہ بیوروکریسی، جاگیردار اور صنعتکار متحرک ہو چکے تھے جو برطانوی سرپرستی میں پھلتے پھولتے رہے تھے۔
جناح نے سول اور ملٹری بیوروکریسی کو خبردار کیا تھا کہ وہ ریاست کے معاملات میں مداخلت نہ کرے، مگر لاہور کے وہی نواب، جو تحریکِ پاکستان میں نعرے لگا رہے تھے، پس پردہ وہی استعماری قوتوں سے تعلقات مضبوط کر رہے تھے تاکہ طاقت کا توازن عوام کے حق میں نہ جائے۔
لاہور کی اشرافیہ میں کئی ایسے جاگیردار تھے جو برطانوی حکومت کے منظور نظر تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی یہ طبقہ برطانوی مفادات کو نقصان پہنچانے سے گریزاں تھا۔ برطانوی حکومت نے پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ان مراعات یافتہ طبقات سے اپنے تعلقات برقرار رکھے اور یوں وہ اشرافیہ پاکستان کی حقیقی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔
یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کی وفات کے بعد پاکستان تیزی سے ایک ایسی راہ پر چل نکلا جہاں طاقت چند خاندانوں اور مخصوص حلقوں میں مرکوز ہو گئی، اور عام آدمی کے لیے وہ خواب دھندلا پڑ گیا جس کے لیے لاکھوں قربانیاں دی گئی تھیں۔
آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ وہی اشرافیہ پاکستان کی سیاست، معیشت، اور سماجی ڈھانچے پر قابض ہے۔ قائداعظم کی اصولی سیاست کو دفن کر کے، ان طاقتور خاندانوں نے پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنا دیا جہاں عوامی حقوق کی جگہ اشرافیہ کے مفادات کو تحفظ دیا جاتا ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لاہور کی اشرافیہ نے صرف جناح ہی کو نہیں، بلکہ پاکستان کے خواب کو بھی دھوکہ دیا۔ اگر پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی ریاست بنانا ہے تو ہمیں اس تاریخ کو سمجھنا ہوگا اور اس سے سبق حاصل کرنا ہوگا کہ کیسے مراعات یافتہ طبقے نے ہمیشہ عوامی حقوق کو دبایا ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ جناح کے اصل خواب کی طرف لوٹا جائے، جہاں طاقت عوام کے پاس ہو، نہ کہ کسی مخصوص اشرافیہ کے ہاتھوں میں۔