پاکستان کی سیاست میں نظریہ، کارکردگی اور قابلیت تو شاید ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، مگر شخصیت پرستی اور مصنوعی بیانیے کا رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز ہیں، جو خود اعتمادی کے شدید فقدان اور احساسِ کمتری میں مبتلا نظر آتی ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب کوئی شخصیت اپنے اصل جوہر سے محروم ہو تو وہ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے مصنوعی ہتھکنڈوں کا سہارا لیتی ہے۔ مریم نواز کی سیاست، اندازِ گفتگو، اور ظاہری شخصیت کو دیکھیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنی عدم خود اعتمادی کو بیانیے، سرجری، اور دوسروں پر حملے کرکے چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔
مریم نواز کے سیاسی بیانیے ہمیشہ مصنوعی اور حقیقت سے دور رہے ہیں۔ وہ خود کو جمہوریت، عوامی خدمت، اور انصاف کا علمبردار کہتی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر خاندانی آمریت مسلط کی جا رہی ہے، عوامی خدمت کے نام پر اقتدار کی ہوس ہے اور انصاف کے نام پر ذاتی کیسز میں ریلیف لینے کا مشن جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ان میں خود اعتمادی ہوتی، تو انہیں ہر معاملے میں جھوٹے دعوے کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔
احساس کمتری کا ایک اور پہلو ان کا حد سے زیادہ ظاہری شخصیت پر انحصار ہے۔ پلاسٹک سرجری، بوٹوکس، فلرز اور میک اپ کے بغیر شاید وہ عوامی تقریر بھی نہ کر سکیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی ہر تصویر ایڈیٹنگ اور فلٹرز کے بغیر شاید منظرِ عام پر نہ آئے۔ اپنی شخصیت کے بجائے ظاہری حسن کو سیاست کا ہتھیار بنانا ظاہر کرتا ہے کہ اندرونی اعتماد کی شدید کمی ہے۔ حقیقی لیڈروں کو چہرے نہیں، کردار، وژن، اور کارکردگی آگے بڑھاتی ہے۔ اگر ان میں کوئی حقیقی صلاحیت ہوتی، تو انہیں بوٹوکس، مصنوعی چہرہ، اور جعلی خود اعتمادی کی ضرورت نہ پڑتی۔
مریم نواز اپنے سیاسی قد کاٹھ کو بڑھانے کے لیے ہمیشہ دوسروں پر انحصار کرتی ہیں۔ کبھی نواز شریف کے سائے میں، کبھی شہباز شریف کے کندھوں پر، اور کبھی اسٹیبلشمنٹ کی گود میں۔ اپنے مخالفین پر حملے اور طنزیہ بیانات صرف اس لیے کہ خود کی سیاسی قابلیت صفر ہے۔ جب بھی ان پر دباؤ بڑھتا ہے، کوئی نیا جعلی بیانیہ، کوئی نیا ڈرامہ، اور کوئی نیا مظلومیت کا کارڈ نکال لیتی ہیں۔ یہ سب واضح علامات ہیں کہ مریم نواز ایک اندر سے غیر مطمئن شخصیت ہیں، جو مصنوعی سہاروں کے بغیر سیاست میں کھڑی نہیں ہو سکتیں۔
حقیقی لیڈر اپنی صلاحیت، وژن اور فیصلوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ مگر مریم نواز کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ احساس کمتری کا شکار ہیں، جو انہیں ہر وقت اپنی اصلیت چھپانے پر مجبور کرتا ہے۔ جعلی بیانیے کے بغیر ان کی سیاست ختم ہو جائے گی، بوٹوکس اور سرجری کے بغیر ان کا "کرشمہ" ماند پڑ جائے گا اور دوسروں پر حملے کے بغیر ان کی اپنی نااہلی کھل کر سامنے آ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک مصنوعی سیاستدان کے طور پر پہچانی جاتی ہیں، جو اصل قیادت کی خصوصیات سے یکسر محروم ہیں۔ مگر عوام کے شعور کا یہ عالم ہے کہ اب وہ جان چکے ہیں: چمکدار پیکنگ کے پیچھے ہمیشہ اعلیٰ معیار نہیں ہوتا۔