نواز شریف خاندان پر عدلیہ پر دباؤ ڈالنے اور ججوں کو بلیک میل کرنے کے الزامات کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ ان واقعات نے پاکستان کے عدالتی نظام پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ذیل میں ان اہم واقعات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے: nawazsharif

1. جسٹس (ر) ملک قیوم کی آڈیو لیکس (1997-1998)

1997 میں، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک قیوم اور اس وقت کے احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمن کے درمیان مبینہ ٹیلی فونک گفتگو منظر عام پر آئی۔ ان آڈیو لیکس میں سیف الرحمن، جو نواز شریف کے قریبی ساتھی تھے، جج پر بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات میں سخت سزائیں دینے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ اس واقعے نے عدلیہ کی آزادی پر سوالات اٹھائے اور جج کی غیر جانبداری پر شبہات پیدا کیے۔

2. جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل (2019)

2019 میں، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی خفیہ ویڈیو جاری کی۔ اس ویڈیو میں جج نے اعتراف کیا کہ انہوں نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں دباؤ کے تحت سزا سنائی تھی اور ان پر مختلف ذرائع سے دباؤ ڈالا گیا تھا۔ اس انکشاف کے بعد جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹا دیا گیا اور بعد ازاں وہ انتقال کر گئے۔

3. جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا بیان (2018)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 2018 میں راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کے دوران الزام عائد کیا کہ ملکی خفیہ ایجنسیوں نے عدلیہ پر دباؤ ڈال کر نواز شریف اور مریم نواز کو انتخابات سے قبل جیل میں رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ ان کے اس بیان کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے ان کے خلاف کارروائی کی اور انہیں عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔

4. سپریم کورٹ پر حملہ (1997)

1997 میں، جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے توہین عدالت کے مقدمے میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو طلب کیا، تو مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا۔ اس واقعے کا مقصد عدالتی کارروائی کو متاثر کرنا اور ججوں پر دباؤ ڈالنا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری پر سنگین سوالات اٹھے۔

5. جسٹس قیوم ملک کی آڈیو لیکس (1998)

1998 میں، جسٹس قیوم ملک اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کے درمیان مبینہ ٹیلی فونک گفتگو کی آڈیو لیکس سامنے آئیں۔ ان لیکس میں شہباز شریف، جج پر بے نظیر بھٹو کے خلاف مقدمات میں سخت فیصلے دینے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ اس واقعے نے عدلیہ کی غیر جانبداری پر مزید شبہات پیدا کیے۔

نتائج اور اثرات

ان تمام واقعات نے پاکستان کی عدلیہ کی ساکھ کو متاثر کیا اور عوام میں عدالتی نظام پر اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح سیاسی دباؤ اور بلیک میلنگ کے ذریعے عدلیہ کے فیصلوں کو متاثر کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ یہ واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط نظام اور قوانین کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔

بس ایک اداس سی دنیا