لاہور کی طوائف: سازش، عشق اور اقتدار
رات کی سیاہ چادر میں لپٹا ہوا لاہور، جہاں قلعہ کی فصیلوں کے سائے میں، دریائے راوی کی مدھم سرگوشیوں میں، اور انارکلی کی تنگ گلیوں میں ایک دنیا آباد تھی۔ یہ وہ لاہور تھا جہاں دن کو نیکوکاروں کی صدائیں گونجتی تھیں، لیکن رات ہوتے ہی رقص و سرور کی محفلیں سجی جاتیں۔
یہ کہانی ہے فریحہ بیگم کی، جو ایک ایسی طوائف تھی جس کی زلفوں میں صرف مرد ہی نہیں، بلکہ پورے کے پورے خاندان اور سلطنتیں الجھ کر رہ گئیں۔ وہ صرف ایک رقص کرنے والی نہ تھی، بلکہ ایک ذہین چالباز اور سیاست کی بساط پر ایک بے حد خطرناک مہرہ بھی تھی۔ اس کا کوٹھا مال روڈ کے قریب تھا، جہاں برطانوی افسران، مقامی رئیس، اور نوافذار سب آتے، محفلوں میں گم ہو جاتے، اور اپنے راز اس کے قدموں میں نچھاور کر جاتے۔
فریحہ کے دروازے پر شام کے وقت جب برطانوی فوجی افسر میجر ہینری پہنچا، تو وہ جانتی تھی کہ یہ ملاقات محض ایک رات کا سرور نہیں تھی، بلکہ کسی بڑی سازش کا پیش خیمہ تھی۔ ہینری کو معلوم تھا کہ فریحہ کے پاس لاہور کے رئیسوں کے وہ راز تھے جو کسی بھی سلطنت کی تقدیر بدل سکتے تھے۔ فریحہ جانتی تھی کہ وہ برطانوی حکومت کے لیے ایک اثاثہ بن سکتی ہے، یا پھر برطانوی افسران اس کی خبر عام کرنے سے پہلے ہی اسے مٹا سکتے ہیں۔
فریحہ کے ساتھ کام کرنے والی نوراں اور بختو نے بھی سیکھ لیا تھا کہ ان گلیوں میں صرف رقص اور محبت کا کھیل نہیں کھیلا جاتا، بلکہ اقتدار کی بازی بھی انہی سنگھار میزوں پر سجتی ہے۔ یہ وہ عورتیں تھیں جو نہ صرف دل لبھاتی تھیں، بلکہ دماغ بھی پڑھتی تھیں، راز بھی چرا لیتی تھیں، اور وقت آنے پر انہی رازوں کا سودہ بھی کر لیتی تھیں۔
لاہور کی اشرافیہ میں بہت سے ایسے خاندان تھے جو برطانوی حکمرانی کے تلوے چاٹتے تھے، اور کچھ ایسے تھے جو آزادی کی آگ میں جل رہے تھے۔ فریحہ کے کوٹھے پر ہر رات ایک نئی کہانی جنم لیتی، ایک نیا سودا ہوتا، اور ایک نئی چال چلی جاتی۔ کبھی کوئی جاگیردار اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے آتا، تو کبھی کوئی سیاستدان اپنے دشمن کی مخبری خریدنے کے لیے۔
لیکن فریحہ خود اس کھیل میں صرف ایک مہرہ نہیں تھی، وہ خود بھی شطرنج کی چالوں میں ماہر ہو چکی تھی۔ ایک رات اس نے میجر ہینری کے ہاتھ سے شراب کا جام لیتے ہوئے آہستہ سے کہا، "تم سمجھتے ہو کہ یہ شہر تمہاری ہتھیلی پر رکھا ہے، لیکن یہ شہر میرے قدموں میں جھکا ہوا ہے۔" ہینری ہنس کر بولا، "ہم نے تمہیں اس مقام پر پہنچایا ہے، ہم چاہیں تو تمہیں مٹی میں ملا سکتے ہیں۔" فریحہ نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، "یہی تمہاری بھول ہے، تم نے مجھے بنایا نہیں، میں نے تمہیں چلایا ہے۔"
اگلی صبح، جب لاہور کی فضا میں اذان کی آواز گونجی، تو کوٹھے کی دیواروں میں کئی راز دفن ہو چکے تھے، اور فریحہ اپنی اگلی چال چلنے کے لیے تیار تھی۔