بنوں، 4 مارچ 2025 – خیبر پختونخوا کے حساس علاقے بنوں کینٹ میں آج ایک خوفناک حملہ ہوا، جس میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے۔ خودکش بمباروں اور مسلح حملہ آوروں نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں شدید تباہی ہوئی۔ دہشت گرد تنظیم جیش الفرسان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، جو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے منسلک گروہ ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑیاں فوجی چھاؤنی کے قریب دھماکے سے اڑا دیں، جس کے بعد مسلح دہشت گردوں نے فائرنگ کی اور اندر گھسنے کی کوشش کی۔ فوج نے فوری جوابی کارروائی کرتے ہوئے چھ حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا۔ لیکن حملے کی شدت اس قدر تھی کہ نزدیکی علاقے میں بھی عمارتوں کو نقصان پہنچا، یہاں تک کہ ایک مسجد کی چھت بھی گر گئی، جہاں متعدد نمازی موجود تھے۔
جبکہ سرکاری بیانیے میں حملے کو دہشت گردوں کا منظم منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے، بنوں کے مقامی افراد اس واقعے کو مختلف نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ علاقے کے کئی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ یہ حملہ خود فوج کے ایما پر کروایا گیا تاکہ ملک میں ہنگامی صورتحال پیدا کی جا سکے اور فوجی قیادت، خاص طور پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کو مزید اختیارات حاصل ہو سکیں۔
ایک مقامی دکاندار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا:
"ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ کہاں سے آتے ہیں، بارڈر کے پار سے کیسے آتے ہیں، اور کن کی مدد سے آتے ہیں۔ فوج اگر واقعی دہشت گردوں کے خلاف سنجیدہ ہوتی تو ان کو روکتی۔ لیکن ہر کچھ عرصے بعد ایسا حملہ ہو جاتا ہے اور اس کے بعد کریک ڈاؤن کے نام پر عام لوگوں پر مزید سختیاں بڑھا دی جاتی ہیں۔"
حملے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف ہر ممکن اقدامات کرے گی۔ تاہم، کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے یہ واقعات ہمیشہ ایسے وقت میں ہوتے ہیں جب فوج پر دباؤ بڑھنے لگتا ہے۔
پاکستانی فوج کی جانب سے سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ حملہ افغانستان سے ہونے والی دراندازی کا نتیجہ ہے اور ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی مزید سخت کی جائے گی۔ تاہم، اگر مقامی آبادی کے الزامات کو دیکھا جائے تو صورتحال اتنی سادہ نہیں جتنی کہ سرکاری بیانیہ ظاہر کرتا ہے۔
یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور فوج کی ساکھ پر پہلے ہی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
بنوں حملے نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ حقیقت میں لڑی جا رہی ہے یا پھر یہ ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت ملکی سیاست میں فوج کی طاقت کو مزید مستحکم کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ مقامی عوام کی شکایات اور فوج کی خاموشی اس بحث کو مزید تقویت دے رہی ہے کہ پاکستان کے اندرونی مسائل کا اصل حل اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو محدود کرنے میں مضمر ہے، نہ کہ صرف دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں۔